تحریر: خطیب اسلامی مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی سرسی، نئی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। الحاج مولانا سید ذیشان حیدر نقوی نے اپنی پوری زندگی ترجیحاتی بنیاد پر قرآن فہمی یعنی قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں بسر کی، انتہائی بلند اخلاق اور ملنسار مزاج کے مالک اور زیاراتِ عتباتِ عالیہ سے مشرف مولانا مرحوم نے درسِ قرآن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا تھا آپ جہاں بھی جاتے وہاں درس قرآن جاری رکھتے اور بچے ، نوجوان ، بوڑھے یعنی ہر عمر کے مسلمان کو قرآن پڑھانے اور قرآنیِ تعلیمات سے آشنا کرانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اور زندگی کے آخری لمحات تک اس خدمت میں پورے خلوص اور جانفشانی کے ساتھ مصروف رہے ۔ اسی بنا پر مرحوم نے مُدرسِ قرآن اور مجسمِ اخلاق کے عنوان سے خاصی شہرت پائی ہے ۔
مولانا سید ذیشان حیدر نقوی ابن سید ضرغام حیدر نقوی مرحوم 1967 میں صوبہ اتر پردیش کے ضلع مرادآباد (موجودہ امروہہ) کے ایک چھوٹے سے موضع عثمانپور سادات کے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہو ئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں تنظیم المکاتب کے مکتب میں حاصل کی اُس کے بعد اعلیٰ دینی کے لیے مغربی اترپردیش کی مشہور و معروف دینی درسگاہ جامعہ عالیہ جعفریہ نوگانواں سادات کا سفر کیا ۔ حصولِ علم کا مقدس سفر ابھی جاری تھا کہ جامعہ عالیہ جعفریہ بعض ناگزیر حالات کے سبب دو حصٙوں میں تقسیم ہوگیا ۔ اس تقسیم کے مضر اثرات مولانا کے تعلیمی سفر پر بھی پڑے جسکا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ مرحوم نے اپنے تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے چند سالوں میں مختلف مدارس یعنی حامد المدارس پہانی ، سید المدارس امروہہ اور باب العلم نوگانواں اور پھر جامعہ عالیہ جعفریہ میں گئے ۔ان مدارس میں مرحوم نے (جیسا کہ آپ خود فرماتے تھے ) صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر عابدی مرحوم ، معراج العلماء مولانا سید عمار حیدر عابدی مرحوم ، مولانا سید ہاشم علی نقوی سرسوی مرحوم ، مو لانا سید محمد طاہر گوئیلوی مرحوم ، مولانا سید شبیہ الحسن عابدی نوگانوی ، مولانا سید محمد تقوی باشٹوی مرحوم ، مولانا سید محمد عبادت نقوی امرہوی اور مولانا سید محمد مہدی عابدی نوگانوی جیسے بزرگ و ممتاز اساتذہ سے علم فقہ ، اصول ، منطق و فلسفہ وغیرہ کا علم کیا تھا ۔ مرحوم نے عربی فارسی بورڈ سے منشی ، مولوی ، عالم ، کامل اور فاضل کی اسناد حاصل کیں جبکہ جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ، ادیب ماہر اور ادیب کامل کی اسناد حاصل کیں۔ مرحوم کے ہم عصر طلاب میں مولانا غضنفر عباس طوسی ۔ مولانا سید ریاض اکبر چیتوڑہ ، مولانا سید نور عین عثمانپور / افریقہ ، مولانا سید رضی عباس عثمانپور/ احمد آباد ، مولانا الیاس حسین ، مولانا مجتبیٰ حیدر انصاری اعظم گڑھ ، مولانا سید محسن گوئیلی اور مولانا سید مصطفےٰ ہردوئی کا ذکر خصوصی طور پر ملتا ہے۔
مرحوم نے دورانِ تعلیم ہی عوامی سطح پر خدمت دین شروع کردی تھی ۔ لیکن علماء اور علم دوست افراد سےمسلسل رابطہ رکھتے رہے چونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کی بصیرت محض کتابوں کی ورق گردانی سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ بلکہ دانشواروں اور مفکرین کی صحبت اور انکے صالح تجربوں سے جو فراست نصیب ہوتی ہے وہ کتاب خوانی کے ساتھ کتاب زندگی کا کامیاب ورق ہوتا ہے ۔ مولانا نے پہلا تبلیغی سفر ماہ مبارک رمضان میں مسجد شیعیان لاکڑی والان مراد آباد کا کیا اور مستقل ایک ماہ تک مومنین کے درمیان دین مبین اسلام کی خدمت کی۔ اور پھر خدمت کا یہ سلسلہ تا حیات جاری رہا آپ نے ملک میں صوبہ اترپردیشں ، صوبہ گجرات اور دہلی کے علاوہ افریقہ کے مختلف حصّوں میں مدتوں دینی خدمات انجام دیں ہیں آپ جہاں بھی گئے اپنی خوبصورت چھاپ چھوڑ کر آئے۔ آپ کے انتقال کے بعد ان مقامات پر ایصال ثواب کے لیے مجالس عزا، قرآن خوانی اور تعزیتی بیانات اور مضامین آپ کی خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں۔
مولانا مرحوم کی طبعیت میں وطن دوستی ، زمہ داری خانودہ ، صلہ رحمی اور خدمتِ والدین کا جزبہ کوٹ کوٹ کا بھرا ہوا تھا۔ جسکا مظاہرہ انکی زندگی میں جابجا نظر آتا ہے ، مرحوم کو یہ خصوصیات والدین کی پاک تربیت کے نتیجے میں نصیب ہوئیں تھیں مولانا کے والد مرحوم سید ضرغام حیدر نقوی بھی جزبہ صلہ رحمی سے مالا مال اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے کوئی بھی اپنا یا غیر آتا تو ممکن حد تک اُس کی مدد ضرور فرماتے آپ کی خاموش طبعیت اور رحم دلی کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ بعض شر پسندوں نے حاسد کی بنیاد پر آپکے چھپر نما گھر میں آگ لگادی جس سے گھر کا سامان ، بستر حتیٰ کہ جانور بھی جل گئے مگر مرحوم ضرغام حیدر نے باوجود اس کے کہ لاٹھی کمزور نہیں تھی ( گائوں کا محاورہ) نہ انتقام لیا نہ پویس میں رپورٹ درج کرائی۔ بلکہ اکثر فرماتے خدا انھیں معاف فرمائے اور ہمارے گناہ بھی بخشے۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ مرحوم کے انتقال کے پانچ چھے سال بعد برسات کے سبب جب مرحوم کی قبر کھل گئی تھی تو ایک چرواہے کی نگاہ قبر پر پڑھی اُسنے دیکھا کہ مرحوم کی میّت اور کفن ایسی حالت میں ہیں جیسے ابھی دفن کیا ہے ۔ چرواہے نے گائوں میں اطلاع دی اور گائوں والوں نے بھی مشاہدہ کیا اس موقعہ پر سبکی زباں پر مرحوم کے مضبوط کردار کا ذکر تھا ۔( یہ واقعہ گائوں میں مشہور ہے اور راقم السطور سے معتبر عالم دین حجتہ الاسلام مولانا سید فرمان حیدر نقوی قبلہ عثمانپوری / علی گڑھ نے فون پر بتایا ) جب بات آ ہی گئ ہے تو یہ بھی پڑھ لیں کہ راقم السطور کو حجتہ الاسلام مولانا سید رضی حیدر زیدی قبلہ پھنڈیروی (خانہ فرھنگ جمہوری اسلامیہ ایران، نئی دہلی ) نے بتایا کہ اُن بڑے فرزند مولانا مرحوم کی قبر پر گئے اور سلام کیا تو قبر سے علیکم سلام کی آواز آئی ۔ مولانا رضی حیدر قبلہ نے مزید بتایا کہ ہمارے بیٹے کا اسرار تھا کہ آپ لوگ بھی چلیں اور جواب سلام سنیں۔ ان واقعات سے مولانا کی شخصیت اور قرآن دوستی کے نتیجے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مولانا مرحوم جب بھی وطن تشریف لا تے تو یہاں بھی خدمتِ دین میں مصروف رہتے نماز پڑھاتے ، مسائل بیان فرماتے ، مجالس کو خطاب کرتے اور مجالس میں شرکت بھی کرتے مولانا اکثر اپنے ہم وطن علماء سے گزارش کرتے کہ ہم سب سال میں ایک ایک مہینہ وطن کو دیں تاکہ یہاں پورے سال نماز جماعت بھی قائم رہے ، مومنین مسائل شریعہ سے بھی واقف ہوں اور وطن کا بھی کچھ حق ادا ہوجائے ۔ مولانا مرحوم کے ایک عزیز نے مجھے تعزیت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا اخلاق و کردار کے اتنے مضبوط تھے کہ وہ اکثر افراد خاندان اور قومی و ملی دوستوں کو فون کرکے گھر کے ہر فرد کی خیریت معلوم کرتے ۔ وہ خاندان اور وطن کے ان لوگوں کو بھی یاد کرتے جن کو اکثر لوگ بھول چکے ہیں۔
مولانا مرحوم 1992 کے اوئل میں راقم السطور اور مرحوم آغا ذاکر مرزا قزلباش دہلوی مرحوم (متولیِ مسجد) کی گزارش پر امامِ جماعت کے فرائض انجام دینے مسجد شیعیان علیؑ ، حوض سوئیوالان، دہلی تشریف لائے تھے۔ یہاں نمازِ پنجگانہ کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج کے مطابق قرآن مجید کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری کیا آپ قرآن حکیم پڑھنے بہت دور دور تک جاتے ۔ مولانا کی پوری زندگی ایک کارگزار عالم دین کی زندگی تھی۔ وہ متقی و پرہیز گار ، شفیق اور درد مند انسان کے ساتھ آچھے مدرس قرآن ، حساس امام جماعت اور دیانت دار خطیب تھے۔ مصلّے کی حساسیت کا عالم یہ تھا کہ جب بھی آپ تبلیغی یا خانگی سفر کرتے مصلّے کسی عالم دین کے سپرد کرکے جاتے ۔ خطابت میں اسقدر دیانتداری برتے کہ جب بھی کوئی ایسی روایت یا نقطہ بیان کرتے جو آپ کی نگاہ سے نہیں گزرا بلکہ کسی معتبر خطیب سے سنا ہے تو اس خطیبِ معتبر کا نام ضرور بتاتے۔ مجالس میں اسلامی تاریخ ، واقعات اور فضائل مولائے متقیانؑ بیان کرنے کا آپکا انداز منفر اور نہایت دلچسپ تھا خطابت میں آپ اکثر شعراء خصوصاً رضاٙ سرسوی مرحوم کے اشعار پڑھتے مصائبِ حضرات اہلیبتؑ اسقدر پُر درد انداز میں پڑھتے کہ سخت سے سخت دل رکھنے والا بھی بلند آواز میں گریہ کرتا۔ مرحوم آچھے خطیب کے ساتھ بہترین سامع بھی تھے راقم سطور کو متعدد مرتبہ محافل و مجالس میں منبر سے مرحوم کو اپنا سبق سنانے اور داد و تحسین کے ساتھ آنسوں کا اعلیٰ تحفہ نصیب ہوا ہے ۔ مولانا مرحوم نے دہلی میں 1996 تک خدمات انجام دیں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے دینی راجدھانی قم ۔ ایران تشریف لےگئے واپسی پر پھر ملک و بیرون ملک دینی خدمات جاری رہیں۔ بہرحال علم سیکھنے اور سیکھانے کا یہ سلسلہ تا حیات رہا۔
افسوس دینی اور قومی خدمت کا جذبہ رکھنے والے دیندار عالم دین مولانا سید ذیشان حیدر نقوی کا 24 جون 2021 شبِ 14 ذیقعدہ دہلی کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ جیسے ہی یہ غمناک خبر عام ہوئی اسپتال اور مولانا کے آبائی وطن (عثمانپور سادات ) میں سوگواروں اور عقیدتمندوں کا تانتا بندھ گیا۔ ملک و بیرون ملک سے سوشل میڈیا کے زریعہ بھی سوگواران دعا مغفرت اور تعزیت پیش کر رہے تھے۔اور یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا۔ جنازہ عثمانپور لایا گیا اور یہاں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ حجتہ السلام مولانا سید قرة العین مجتبیٰ عابدی صاحب قبلہ پرنسپل جامعتہ المنتظر نوگاواں سادات نے پڑھائی جسمیں کثیر تعداد میں مقامی و بیرونی سوگواران نے نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ ۔ ٢ بیٹے سید اظہر علی نقوی ، سید غازی عباس نقوی اور ٣ بیٹییاں شامل ہیں۔ ہماری دعا ہے پروردگار مرحوم عالمِ دین کے درجات بلند فرمائے علماء و شہداء میں محشور فرمائے پسماندگان اور اہلِ وطن کو صبر عنایت کرے۔ آمین یہ چند ادھوری اور بے ربطہ سطریں مولاناِ عزیز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپکی خدمات کو آئندہ نسلوں کے لیے امانت کے طور پر محفوظ کرنے کی بساط بھر کوششں ہے مجھے احساس ہے کہ میں اپنی لا علمی کی بنا پر مولانا کی خدمات کا بڑاحصّہ ضبط تحریر میں نا لا سکا۔ جس کے لیے وارثین اور عقیدتمندوں سے معزرت خواہ ہوں۔